۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
ریوائیول احیاء درس علماء

حوزہ / خمینی بت شکن نے کہا کہ قرآن کا تقدس یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے،  قرآن کا تقدس یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور قرآن کا اصل احترام یہ ہے کہ اس کو ایمپلیمنٹ کیا جائے، اس کو پریکٹیکل کیا جائے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب میں مدرس جناب مولانا نقی ہاشمی شریک تھے۔ بنیادی طور پر اس درس کا موضوع "حالات حاضرہ سے متعلق لبنان کے حالات اور برسی امام خمینی رح" تھا۔

مولانا صاحب نے درس کا آغاز خداۓ علیم و حکیم کے نام سے کیا۔ موضوع کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو اہم موضوعات لے کر ہم آپ کی محفل میں موجود ہیں جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ آج کل ایک تو انتخابات لبنان کا ایشو ہے۔ دوسرا اہم ایشو خمینی بت شکن کی 33ویں برسی ہے۔ اس موضوع پر بھی آپ سے مخاطب ہیں۔ مختصراً میں یہ چاہوں گا کہ ان دونوں موضوعات پر روشنی ڈالی جائے۔ آپ لوگ آمادہ ہوجائیں۔ سوالات کے لیے پھر انشاءاللہ اس محفل کو ہم سوالات کے ذریعے سے آگے بڑھاتے ہیں۔

پہلا موضوع خمینی بت شکن ہے۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو امام موسی کاظم علیہ السلام جو ہمارے ساتویں امام ہیں، نے بہت سخت دور دیکھا۔ روایت میں ہے کہ امام چودہ سال جیل میں رہے اور ایک روایت کے مطابق 21 سال امام نے زندان میں گزارے۔ پھر اس کے بعد امام رضا علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا انہیں مدینے سے دور کردیا گیا یعنی اسلام کا جو مرکز بنتا ہے مدینہ اور مکہ اس سے اہل بیت علیہ السلام کو دور کردیا گیا۔

ان سخت حالات میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولادوں (جن میں 34 کے قریب اولاد اور کچھ روایتوں کے مطابق 38 بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں) نے جو بہترین روش اختیار کی ہے۔ یہ سب پورے عالم اسلام میں پھیل گئے جیسا کہ آپ نے صرف امام رضا علیہ السلام کے متعلق سنا کہ وہ مدینے سے خراسان کی طرف زبردستی لے جائے گئے یا آپ نے بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے بارے میں سنا کہ جو اپنے بھائی سے ملنے کے لیے آئیں۔ وہ خراسان کا سفر کرنا چاہتی تھیں لیکن راستے میں انہیں شہادت ملی اور قم ان کا مدفن قرار پایا۔

یہ دو شخصیات اور ان کے ساتھ 34 اور افراد کہ جو الحمدللہ پورے عالم اسلام میں پھیلے اور انہوں نے محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور خود اسلام کا جو اصل چہرہ، اصل شکل تھی اس کو سامنے لانے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ سب ہی شہید ہوئے، سب ہی نے قربانی دی، سبھی کو اللہ نے شہادت دی لیکن شہادت جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہونے سے پہلے انہوں نے اپنا پیغام بہت سارے لوگوں تک پہنچا دیا۔

دنیا کے مختلف علاقوں میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولادیں آپ کو مل تو جائیں گے لیکن اس کے بعد سے لے کر آج تک ان کاظمی سادات نے جو برصغیر (پاکستان اور ہندوستان) میں کاظمی مشہور ہیں لیکن عرب اور عجم دنیا میں انہیں موسوی سادات کے نام سے پہچانا جاتا ہے، سب سے زیادہ کوششیں آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو، فرقۂ تشیع کو پھیلانے ،اسلام کو پھیلانے کے لیے ان افراد نے کی ہیں۔ جنہیں ہم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولادوں سے محسوس کرتے ہیں۔

انہی کے ایک بیٹے جو کشمیر میں رہے اور اس کے بعد ان کے بیٹے نجف چلے گئے اور اس کے بعد پھر ان کے بیٹے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جو الحمدللہ اپنے والد کے ساتھ ایران آئے یہ بھی وہی موسوی سادات ہیں، امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولادیں ہیں کہ جنھوں نے اپنے جد امجد سے کوشش اور جدوجہد اور مسلسل تگ و دو اور اسلام کو پھیلانے کے لیے قربانیاں دیں۔ یہ سب انہوں نے سیکھا ہوا تھا اور الحمدللہ ہم نے دیکھا کہ جب خمینی بت شکن اپنے والد کے ساتھ ایران آئے تو ان کے والد نجف سے ایران شفٹ ہوئے تو جب یہ اس وقت چھ مہینے کے تھے۔ ان کے والد صاحب کو شہادت ملی یعنی مصطفی خمینی کو اور پھر امام خمینی نے ابتدئی ساری تعلیم گھر سے اور علاقے سے جس کو خمین کہتے ہیں اور پھر اراک شہر گئے اور پھر قم آ گئے۔ پھر ملک بدری ہوئی اور یہ نجف میں 14 سال گزارنے کے بعد پھر ایران آئے۔

اس عظیم شخصیت نے کیا کیا، امام موسی کاظم کی اس نسل نے کیا کیا؟ انہوں نے قرآن جو صرف جلد کی شکل میں اور ایک مصحف کی شکل میں قرآن کو بہت مقدس بناکر کہ جسے کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا تھا، خمینی بت شکن نے اس قرآن کو دنیا میں عملی شکل دی۔ یہ بہت مشکل کام تھا، یہ آسان کام نہیں تھا۔ قرآن ایک مقدس کتاب، ایک ثواب کی کتاب، ایک بہت ہی پاکیزہ کتاب ہے جس کا تصور اور احترام بس یہ تھا کہ جتنا ہو سکے اس کو بلندی پر رکھ دو، جتنا ہو سکتا ہے اس کو رسی اور ڈوریوں سے باندھ دو، کوئی اس کو ہاتھ نہ لگائے، کوئی اس کے قریب نہ جائے۔

انہوں نے کہا: خمینی بت شکن نے کہا کہ قرآن کا تقدس یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے، قرآن کا تقدس یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور قرآن کا اصل احترام یہ ہے کہ اس کو ایمپلیمنٹ implement کیا جائے، اس کو پریکٹیکل کیا جائے اس میں جو واقعات حضرت موسی علیہ السلام کے,حضرت نوح علیہ السلام کے ہیں، حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام ,حضرت ابراہیم علیہ السلام جن شخصیات کا اس میں تذکرہ ہوا ہے انہوں نے اپنے زمانے کے طاغوتوں کے خلاف قیام کئے انہیں سمجھا جائے۔ وہ جو قرآن خود بھی کہتا ہے کہ آئیں ایک ایسے کلمہ پر جمع ہوجاتے ہیں جو ہمارے اور آپ کے درمیان سوا ہے ،برابر ہے۔

دوسرے لفظوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے آؤ دعوت دیتے ہیں آپ کو دو چیزیں کی وہ دو چیزیں بڑی اہم ہیں: ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری اجتناب کرتے ہیں طاغوت سے۔

طاغوت کا لفظ انہی بڑی طاقتوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ جو چاہتے تھے کہ اللہ کا دین نہ پھیلے، رسول اللہ کا دین نہ پھیلے، انبیاء کا دین نہ پھیلے ،اہلبیت (ع) کا دین نہ پھیلے اور ان کی اپنی خواہش ہے کہ ان کا بنایا ہوا نظام پوری دنیا پر مسلط ہوجائے۔ میرے خیال میں آج کے زمانے میں یہ بات بڑی واضح اور کلیئر ہے۔ جو زمانے کی طاقتیں چاہتی تھی، طاغوت چاہتا تھا وہ آج کے زمانے میں بڑا کلیئر ہے لیکن آج یہ ہمارا موضوع نہیں ہے کہ ہم اس طرف جائیں۔

جب اللہ کا پیغام پھیلانے کے لیے سارے انبیاء نے کوشش کی تو خدا نے قرآن میں کس طرح اس پوری کوشش کو محسوس کیا؟۔

وہ جو محسوس کوششیں ہیں ایک پریکٹکل ہیں سب کے لئے سب کے لیے کہ آپ نے اصل میں اس طرح کی زندگی گزارنی ہے اور اس پر آپ نے دیکھا الحمدللہ جزوی طور پر بہت عمل ہوا اجتماعی طور پر پورا قرآن اس طاغوت کے خلاف جدوجہد کو جو سپورٹ کیا اور اس کے بعد اس کو واضح کیا اس پر عمل بھی ہوااور آج تک الحمدللہ وہ جاری وساری ہے یہ انقلاب امام خمینی کی وجہ سےہوا۔

امام خمینی بت شکن کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ انبیائی تحریک کو ایک بار پھر اس معاشرے کے اندر فی زمانہ جو تقاضے بنتے تھے اس اعتبار سے کلیئر کیا اور الحمدللہ ہم نے دیکھا کہ آج کس طرح سے اسلام صرف اسلام کہنا ٹھیک نہیں ہے بلکہ اپنے ادیان کی value کے لیے کلیسا چرچ کو دوبارہ ایک اہمیت ملی ہے۔

یہودیوں کی عبادت گاہ کو بھی اہمیت ملی ہے یعنی تمام ادیان مضبوط ہو رہے ہیں دوبارہ روحانیت پلٹ کر آئی ہے دوبارہ معنویت پلٹ کر آئی ہے شریعت پر عمل پلٹ کر آیا ہے دوبارہ لوگوں نے طاغوت سے لڑنا سیکھ لیا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ الحمدللہ خمینی بت شکن نے جہاں انسان کو اپنے تذکیہ کی طرف دعوت دی ہے وہاں آپ نےتذکیہ کا آخری نتیجہ کہ بھائی آپ نے طاغوت سے مقابلہ کرو یہ قرآن کا تقاضا ہے، اسلام کا تقاضا ہے، یہ اہل بیت علیہم السلام کا پڑھایا ہوا دین ہے۔ اگر اہل بیت علیہم السلام نے اپنے زمانے کے طاغوتوں کے ساتھ اچھا رابطہ رکھ لیا ہوتا تو اتنی شہادتیں نہ ملتیں۔ دو آئمہ تلواروں سے باقی سب زہر سے شہید ہوئے۔ اگر یہ خاموش بیٹھے ہوئے ہوتے اگر یہ ایسے کسی دین کی تبلیغ کر رہے ہوتے کہ جس سے طاغوت پر کوئی اثر نہ پڑتا تو پھر طاغوت ان کو کیوں اپنے زمانے کی بڑی طاقتیں ان کو کیوں شہید کرتیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا دین ایک بار پھر ایمپلیمنٹ ہو رہا تھا دین جو کتابوں کی زینت رہ گیا تھا ایک بار پھر ایمپلیمنٹ ہو رہا تھا۔

آپ نے دیکھا کہ آج طاغوت پھر گھبرا گیا ہے طاغوت نےایک بار پھر یہ احساس کر لیا ہے کہ اسلام ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ دین رسول اللہ بہت بڑی پاور ہے۔ قرآن بہت بڑی طاقت ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین میں بہت جان ہے کہ تیرہ سو سال گزر گئے اس کے باوجود کوئی ایک شخصیت لوگوں کو دوبارہ اہل بیت کی طرف بلاتی ہے ،قرآن کی طرف بلاتی ہے، اسلام کی طرف بلاتی ہے لوگ جوق در جوق واقعا افواج کی صورت میں دین کے اندر داخل ہوتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ خمینی بت شکن کا کام صرف ایران تک محدود نہیں رہا بلکہ ایران کے بعد لبنان اور لبنان کے بعد انڈیا، پاکستان پر، شام اور پھر عراق اور یمن اور نائیجیریا تک الحمدللہ وینزویلا اب ہر جگہ ایک انقلاب سا ہے۔ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہم سمجھ گئے ہیں کہ اب انشاءاللہ ہمیں خمینی بت شکن کی دی ہوئی فکر کو آگے بڑھانا ہے۔

اس کے ساتھ ہم اپنے دوسرے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں یعنی انتخابات لبنان۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے فروری 1992 میں پہلی مرتبہ حزب اللہ نے لبنان میں یہ decide کیا کہ لبنان میں جو اس وقت سے لے کر آج تک ہونے والی 128سیٹیوں پر الیکشن لڑنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے مذاہب کی بنیاد پر تقسیم کی ہوئی ہے۔ لبنان کی آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ انہوں نے لبنان کو مذاہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا ہوا ہے، محدود کیا ہوا ہےکہ پہلےتو خود آئین یا چارٹر جسے آئین اساسی کہتے ہیں کہ اس ملک کا آئین ایسا ہو۔ پہلے سے یہ طے کر رکھا ہے۔ یہ70 کی دہائی کی بات ہے یہ 60 کی دہائی کی بات ہے جب فرانس اس علاقے سے جارہا تھا تو اس نے decide کیا کہ عیسائی سب سے زیادہ ہیں تو ان کی اتنی سیٹیں مختص ہیں، اہل سنت دوسرے نمبر پر ہیں ان کی سیٹیں اتنی مختص ہیں اور اہل تشیع تیسرے نمبر پر ہیں تو ان کی سیٹیں اتنی مختص ہیں تو بوگزی وہ چوتھے نمبر پر ہیں ان کی اتنی سیٹیں مختص ہیں یعنی 128کی وہ تقسیم کر کے گئے ہیں۔

اگر ہم سارے شیعہ اپنی ساری سیٹیں بھی جیت لیں تو جیتنے کے باوجود بھی ہم کوئی بہت موثر کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اگر ہم چاہیں کہ آئین میں تبدیلی لے کر آئیں ہماری تعداد اتنی نہیں بنتی کہ ہم آئین میں تبدیلی لے کر آئیں یعنی یہ مسائل مسلسل ہمارے ساتھ ہیں تو یہ سلسلہ ہے لبنان کے انتخابات کا۔ تو جب حزب اللہ نے 1992میں حصہ لیا تو پہلے 13 سیٹیں تھیں اور پھر 13 سے 16 ہوئیں اور پھر 26 ہو گئیں امل کی ملا کے۔ امل بھی حزب اللہ کی طرح کی شیعہ آرگنائیزیشن ہے جو پہلے سے لبنان کے اندر ہے۔ تو ہمارے پاس 30 سیٹیں آ گئیں ہیں یعنی لبنان کی 30 سیٹیں شیعوں کی مختص ہیں یعنی یہ حزب اللہ اور اس کے ماننے والوں نے یا ان کے الائنس نے لے لی لیکن کیونکہ عیسائی دنیا اور ان کے اندر جو برائی ہے لبنان کے اندر قبائلی نظام!

قبائلی نظام میں کیا ہوتا ہے یہ کہ آپ کسی بڑے کو راضی کرلیں قبیلے کے سردار کو راضی کر لیں تو پھر نیچے کے لوگ جتنے بھی ہوتے ہیں وہ سارے خود اس آدمی کو ووٹ ڈالتے ہے یہ ایک مسئلہ ہے۔ یعنی پہلا مسئلہ آئین کے اندر غلط تقسیم ہے۔

دوسرا جو بہت خطرناک مسئلہ ہے وہ ہے قبائلی نظام کا۔ قبائل کو خرید لیجیے سردار کو خرید لیجیے تو سارے کے سارے ووٹ خود ہی پڑ جاتے ہے۔ یہاں پر بہت بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ ہوا ہے۔ اس کے بعد یہاں عیسائیوں میں اہل سنت میں اور دورزیوں جو حزب اللہ کے حامی لوگ تھے انہیں ہرایا جائے اور اس پر کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہے۔ پچھلی 70/71 سیٹ بن جاتی تھی۔جو الائنس سے 71 کے قریب بن جاتی تھی۔ اس دفعہ وہ شاید 60/61 کے قریب سیٹیں ہے۔ یعنی 9/10 سیٹیں جو ہم نے لوزloose کی ہیں کیوں کی ہیں؟ انہوں نے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا ہے۔تیسری جو بہت بڑی مشکل ہے وہ یہ ہے کہ فرانس کی خواہش ہے۔ ویسے تو امریکہ اور اسرائیل کی بھی یہی خواہش ہے لیکن فرانس کی زیادہ ہے کہ جتنی بھی عیسائیوں کی سیٹیں ہیں۔یعنی دوسرے لفظوں میں الیکشن وہ جیتیں جو اسرائیل کو قبول کرنے والے لوگ ہوں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے لوگ ہوں۔ اس لیے فرانس نے بہت بڑے پیمانے پر عیسائی دنیا کو لبنان کے اندر جو عیسائی رہتے ہیں ان کو خریدا اور جو باہر رہتے ہیں ان کو بھی خریدا۔ ان کی کوشش تھی کہ ووٹ ان لوگوں کو پڑیں جو حزب اللہ کے مخالف ہیں۔ انھوں نے انتخابات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا کہ ایک گروہ یہ تھا کہ حزب اللہ کے ہاتھ میں اسلحہ رہے۔ اور ایک ان کےمخالف کے ہاتھ میں تھا کہ جو حزب اللہ سے اسلحہ چھیننا چاہتے ہیں۔یعنی اصل موضوع کو الیکشن میں سے نکال دیا کہ لبنان میں ترقی کیسے ہو، کون اچھے کام کر سکتا ہے کون لبنان کو اوپر لے جا سکتا ہے۔ یہ الیکشن کو اس بات پر آہستہ آہستہ لے گئے کہ آیا حزب اللہ کو اسلحہ دینا چاہیے یا نہیں؟

چوتھی چیز جو انہوں نے استعمال کی وہ پروپیگنڈا مشینری ہے۔ پورا یورپ ان کے پیچھے ہے ،پورا ہالی ووڈ ان کے پیچھے ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورا استعماری میڈیا ان کے پیچھے ہے۔ سمیر جعجع ان کے پیچھے ہے سمیر جعجع ایک لبنانی عیسائی ہے جس نے لبنانیوں کا اتنا زیادہ قتل عام کیا ہے کہ اسے لبنان کی عدالت سے سزائے موت ہو چکی تھی لیکن آہستہ آہستہ عدالت سے وہ سزائے موت ختم کروائی گی اور اب اسے لبنان کا ایک بڑا لیڈر بنا دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے مائیکل اون ہیں وہ بھی ایک ڈکٹیٹر تھے لیکن اب کافی بہتر ہوگئے ہیں۔ اب حزب اللہ کا ساتھ دیتے ہیں اور اسرائیل مخالف بھی ہیں ان کو ہرانے کے لیے بہت زیادہ پیسہ سمیر جعجع نے خرچ کیا۔ پھر یورپ کے میڈیا نے سپورٹ کی شاید یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا آپ سمجھے کہ استعمار نے حزب اللہ کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ پلاننگ کی تھی۔ کسی طرح سے حزب اللہ سے اسلحہ لے لیا جائےاور وہ ادارے اور فورسز آجائیں جو اسرائیل کو تسلیم کر لیں اب اگر یہاں تک کی میری باتیں آپ کو سمجھ آگئی ہیں تو آپ سمجھے کہ دنیا میں جو جنگ چل رہی ہے وہ یہی ہے۔

شام پر حملے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ یمن میں جو یلغار کی ہے، آل سعود نے اس کا ہدف بھی یہی ہے اور یہ جو پاکستان کے اندر جو چینجگ آئی ہے۔ اس کا بھی بڑا ہدف یہی ہے کہ کسی طرح سے normalize کیا جائے؟ کسی طرح سے پوری دنیا کو اسرائیل کے لئے تیار کیا جائے کہ یہ سب اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کر لیں اور پھر یہودی یہ کہیں کہ اب جہاں دو ریاستی نظریہ ہے یعنی فلسطینیوں کو بھی ملک ملے گا۔ اسرائیل کے اندر یہودیوں کو بھی ملک ملے گا۔

یعنی یہ ہیں کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک کس کو ملے گا۔ اب اس میں جو سب سے بڑی رکاوٹ الحمداللہ ہم تشیع ہیں وہ تشیع لبنان ہے وہ تشیع ایران تشیع افغانستان، تشیع شام ہو یا تشیع پاکستان ہوں کیا یہ جہاں جہاں بھی شیعہ پائے جاتے ہیں پہلے مرحلے میں تشیع رکاوٹ ہیں۔ اب آہستہ آہستہ ہم رکاوٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اب الحمدللہ اہل سنت بھی ہمارے ساتھ ہیں آپ کے سامنے خود فلسطین کے نوجوان ہیں، اہل سنت کے نوجوان ہیں، الحمدللہ چار امامی اور شش امامی وہ لوگ بھی ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، الحمدللہ بات آگے بڑھ رہی ہے، اب عیسائی بھی ہمارے ساتھ ہو رہے ہیں، وینزویلا بھی آپ کے ساتھ دے گی اور یہ وینزویلا اور اس کے پڑوسی ملک لاطینی امریکا جس میں ارجنٹائن برازیل شامل ہے الحمدللہ یہ آہستہ آہستہ سمجھ گئے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے یہودیوں نے انہیں خالی کیا ہے۔ یہ بہت مالامال ہوا کرتے تھے۔ برازیل، ارجنٹائن یہ بڑے مالامال ملک ہوا کرتے تھے۔ وینزویلا خود بھی تیل سے مالا مال ملک تھا لیکن آپ دیکھیں کہ یہ سب کے سب کس قدر تیزی سے زوال کی طرف گئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ خمینی بت شکن کی تحریک نے چالیس پچاس سال میں دنیا کے مستضعفین کو یہ بات سمجھا لی، دنیا کے پسماندہ لوگوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ مسثضعفین کے اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لے لو اپنے مقدرات کو اپنے ہاتھ میں لو۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جو اسلام کا درس ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا، جو اہل بیت علیہم السلام کا دین ہے،ان کی تعلیمات ہیں کہ ہر ملک کا، ہر سرزمین کا، ہر انسان فیصلہ کرنے میں آزاد ہو کہ اس نے کس طرح سے لے کر چلنا ہے۔ یہی وہ درس خمینی تھا جو الحمدللہ آج شیعہ دنیا سےہوتا ہوا ،سنی دنیا سے ہوتا ہوا عیسائیت تک پہنچ گیا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انشااللہ اللہ نے توفیق دی اور دشمنوں کی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج لبنان کے الیکشنزپر بات ہو رہی ہے۔

یہی وہ مستضعفین ہیں جن کا قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے۔ مستضعفین سے مراد وہ نہیں ہیں کہ جو جو علمی اعتبار سے ،فکری اعتبار سے مالی اعتبار سے پسماندہ ہو، جو زبوں حالی کا شکار ہو، جو مالی پریشانی کا شکار ہو، مشکلات کا شکار ہو بلکہ مستضعفین وہ لوگ ہوتے ہیں جو صاحب ثروت لوگ ہوتے ہیں، یہ صاحب عقل لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی اختیار نہیں ہو۔ جنہیں ہم استضعاف کہتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کوئی اختیار نہیں ہو۔ مستضعف سے مراد کوئی غریب نہیں ہے، کوئی فقیر نہیں ہے، مسکین نہیں ہے، یہ غلط ترجمہ ہے مستضعفین کا۔

مستضعفین کے بارے میں قرآن نے کیا کہا؟۔ "یہ جتنے بھی زمین پر مستضعفین ہیں ان کو ہم بااختیار بنانا چاہتے ہیں ان کو امام بنانا چاہتے ہیں ان کو وارث بنانا چاہتے ہیں"۔

مستضعفین کی جو تعریف ہم نے کی ہے وہ غلط ہے۔ قرآن مستضعفین ایسے لوگوں کو کہہ رہا ہے کہ جن کے پاس سب کچھ ہو لیکن اختیار نہ ہو یعنی قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ ان کے پاس سب کچھ ہو لیکن اختیار نہیں ہو۔ لیکن الحمدللہ انقلاب خمینی نے اس انسان کو، مومن کو جو مستضعف کو بااختیار بنانا شروع کیا ہے اور یہ استضعاف خدا کا شکر ہے اور اہل بیت علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ مستضعف اتنا مضبوط ہو گا کہ یہ ملک سنبھالنے کے قابل ہو جائے گا۔ قرآن نے امامت کی بات کی ہے ان کے لیے کہ ہم ان کو امام بنانا چاہتے ہیں، ہم ان کو وارث بنانا چاہتے ہیں۔ کہاں کا وارث؟ وہی جو قرآن نے ایک اور آیت میں واضح کیا ہے کہ ہم نے یقینا زبور میں لکھ دیا ہے۔ قرآن کے بعد ہم نے یہ بات زبور میں بھی لکھ دی ہے کہ اللہ کی زمین صالح بندوں کے حوالے کرنی ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا اسے دے گا۔ یہ ساری آیات کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ ساری آیات کہہ رہی ہیں کہ یہ سرزمین یہ اللہ کی ہے جس میں امریکہ بھی شامل ہے، برطانیہ بھی شامل ہے، لبنان بھی شامل ہے، ایران، پاکستان بھی شامل ہے۔ ساری دنیا کا اصل مالک ملک امام زمانہ عجل اللہ الشریف اور مستضعفین ان کا ساتھ دیں گے دنیا میں جب امام قیام کریں گے۔ یہ ہماری روایات میں موجود ہے۔ جس طرح یہ دنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہو گی یہ لوگ آئیں گے اور اس کو عدالت سے بھر دیں گے۔

بس میرا خیال ہے ہماری بات مکمل ہوئی ہے۔ ان انتخابات سے جو بات بڑی کلیئر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مستضعفین نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ میں اختیارات لینے شروع کر دیئے ہیں۔ اب یہ سلسلہ لبنان کے بعد عراق میں، پھر افغانستان انشاءاللہ جیسے جیسے شعور پھیلے گا۔ پاکستان تمام اسلامی ممالک میں انشاءاللہ آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔ ماشااللہ مستضعفین کے ہاتھ میں اختیار آئے گا پھر طاقتور ہو کر اس دنیا کے سلسلے کو شروع یہ تربیتی سلسلہ انشاءاللہ کہاں منتظر ہونا ہے کہ جب امام زمانہ یہ سمجھیں گے کہ اب کی حفاظت کرنے والے لوگ کا ساتھ دینے والے لوگ کہنے پر قربانیاں دینے والے لوگ میں آگئے ہیں تو جو پوری دنیا میں جو ٹیسٹ کیسے چل رہے ہیں آپ سب اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں اور آہستہ آہستہ امتحان میں پاس ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ امام کی فوج میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں ہیں کہ جب ہمارے امام تشریف لائیں گے اور اس دنیا پر مستضعفین کی حکومت کا قیام ہوگا آپ ہماری بات مکمل ہو گئی ہے۔

پروگرام کے اختتام پر آغا نے میٹنگ کے پارٹی سپنٹس کے سوالات کے انتہائی احسن انداز میں جوابات دیئے اور دعا کروائی۔

پروگرام میں شامل دنیا بھر کے پارٹی سپنٹس میں سے جن شہروں کے پارٹی سپنٹس کی طرف سے سوالات کیے گئے ان میں کراچی، ڈیرہ غازی خان، سرگودھا، لندن، حیدر آباد، لندن اور دبئی شامل تھے۔

مولانا صاحب کامکمل درس ریوائیول کے یو ٹیوب چینل پر اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے:

http://www.youtube.com/c/revivalchanel

http://www.facebook.com/revivalchanel

ZOOM ID 3949619859

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .